Saturday, October 8, 2016

  ہجرتِ محمدی ؐ  : آزاد فضا ؤں میں سانس لینے کافیصلہ 

از:  سیدحامد محسن ، چیرمین سلام سنٹر ، بنگلور





اللہ تعالیٰ پر کلی اعتمادانبیا اکرام علیہ السلام کا خاصہ ہواہے۔ اسی اعتماد نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود کے بے ضر ر ہونے اور اس میں بے دھڑک کود پڑنے کا حوصلہ دیا۔ اسی اعتماد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرائیلیوں کے قافلے کے ساتھ بحر قلزم کو عبورکرنے پر آمادہ کیا۔ 
نبی آخرالزماںحضرت محمدؐ  کی ایمانی حرارت کی بنیادبھی یہی توکل علی اللہ تھا۔ جس کے سہارے حضور پرنور ؐ کی ایمانی حرارت نے وادیٔ ظلمات سے مدینہ کی جانب رخت سفر باندھنے کاعزم کیا۔ مکہ کی سرزمین دعوت الیٰ اللہ کے لئے بنجر ہوچکی تھی ۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کااِرادہ کرلیا۔ جب آپ کسی کام کاارادہ کرتے توقرآ نی ہدایت کے مطابق ان شاء اللہ کہتے اور پھر حالات کے تقاضے اور خدشات کوبالائے طاق رکھ کر اس عزم کوپوراکرنے میں لگ جاتے ۔ اللہ کی تائید پر غیرمتزلزل یقین آپؐ  کو مہمیز بخشتا اور آپ سعی مسلسل کے ساتھ اس عزم کو شرمندہ  ٔتعبیر کرتے۔ اوراس پورے پروسیس میں اللہ کے حضور میں انتہائی عجزوانکساری کے ساتھ دعا مانگتے رہتے۔ 


صبر ،ہمت، حکمت اور توکل علی اللہ

حضرت محمدؐ نے مدینہ ہجرت کے اِرادے کو عملی شکل دینے کے لئے دوبرس عرق ریزی کی ۔ منصوبہ بندی ایسی تھی کہ کسی مرحلے میں اتفاق کی گنجائش نہ رکھی جائے۔ پلاننگ ہر لحاظ سے مبسوط اور جامع ہو اور مخالفین کو کہیں سے ہوا نہ لگنے دی جائے۔ یہ ذہن نشین رہے کہ مکہ اور مدینے کے درمیان دوسومیل(340کلومیٹر)کافاصلہ تھا۔ راستہ پرخطر تھا۔ وادیوں کے نشیب وفراز ،کو ہستانی سلسلے اور ویران طوالتیں سبھی کچھ آزمائش اور امتحان کودعوت دے رہی تھیں۔ مگر توکل علی اللہ نے کبھی نبی ؐ کو ان فکری ، عقلی اور طبعی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے نہیں روکاجس کاتقاضہ انسانوں سے فطرت کرتی ہے لیکن ان تدابیر کی پشت پر ہر لمحہ اور ثانیہ یہ خیال محرک ہوتاکہ جو معرکہ انسانوں کے بس سے باہر ہو اس کے لئے خدائے ذوالجلال پر بھروسہ کیاجائے۔ دراصل اسلام کی یہی تعلیم ہے جو جبریت (Fatalism)کی نفی کرتی ہے۔ جس کے زیر اثرانسان تقدیر پر شاکرہوکر حالات سے مصالحت کرلینے میں آسودگی سمجھتاہے۔ اللہ کی تائید ونصرت اسی وقت آتی ہے جب انسان اپنی مقدرت بھر تمام تدابیر عملی طورپر استعمال کرچکاہوتاہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کہتی ہے۔ 
’’اللہ اس وقت تک لوگوں کے حالات تبدیل نہیں کرتاجب تک کہ انسان ان اوامرکو نہ تبدیل کرے جس کاو ہ متحمل ہے‘‘قرآن سورہ 13، آیت 11
ہجرت کے حالات اور واقعاتحضرت محمدؐ کے صبروہمت کے پیکر اور توکل علی اللہ ہونے کی گواہی دے رہے تھے اور یہ داستان بھی شہادت دے رہی ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر کس طرح اپنے محبوب بندوں کی جانوں کی مکڑی کے کمزور ترین تاروں سے حفاطت کرتاہے۔ خود حضور پرنورؐ کا کردار بتارہاہے کہ اللہ پراعتماد کے سہارے اس کاعزیز ترین نبی اس حال میں ہجرت کی تیارکرتاہے کہ وہ تمام قرضہ جات چکاڈالتاہے، کوئی تحفے قبول نہیں کرتا اور لوگوں کی امانتیں اپنی غیر حاضری میں ادا کرنے کاانتظام کرتاہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ خود کو مکمل طورسے خدا کی تحویل میں دے ڈالتاہے اور کسی بندہ ٔ خدا کے احسان وسہارے کو قبول کرنے پر راضی نہیں ۔ 
ہجرت دراصل اسی اعتما دکانام ہے جو بندہ خدا کے تئیں اظہار کرتاہے۔وہ اپنی انا، اپنے مرتبے سبھی کچھ کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف خدا کے حضور خود کو جھکادیتاہے اور اعلان کرتاہے کہ کامیابی صرف خدا کی رحمت پر منحصر ہے۔ 


ایمان کی آزمائش

 ظلم اور جبر کی انتہا نے حضرت محمدؐ   کو اپنے پیروکاروں کے ہمراہ مکہ سے ہجرت پر مجبور کردیاتھا۔ حالات ناگفتہ بہ ہوتے جارہے تھے کئی مؤمنین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ دوسروں کو روزانہ زدوکوب کیاجاتا۔اب نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ قریش اور اس کے سرداروں نے نبی کریم ؐ کو ہلاک کردینے سے متعلق منصوبہ بنالیاتھا۔ لہذا ان ستم زدہ مسلمان مردوخواتین کے لئے ہجرت ایک ایسا مرحلہ تھا جو ان کی زندگیوں میں زبردست تبدیلی کانقیب تھا تاکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ کھلی فضا میں سانس لے سکیں اور اپنی عبادتوں اور مذہبی آزادیوں کااستعمال کرسکیں۔ قرآن میں فرمایاگیاتھاکہ ’’اللہ کی دنیا وسیع ہے ‘‘ انہوں نے محض اپنے ایمان واعتقاد کی خاطرہجرت کی۔اور اپنی مکی زندگی کے عادات واطوار کو تج دیا۔ قرآنی آیات میں ان مؤمنوں کی تعریف کی گئی اور ان کے حوصلے اور ایمان پر استقامت کو سراہاگیا جنہوں نے یہ دشوارمرحلے کو قبول کیااور خدائے واحد میں اپنے ایمان کو جتلایا ۔
’’وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی خاطر اپنے گھربار چھوڑے اور ظلم وستم سہے ، ان کو ہم دنیا میں بھی ایک اچھا گھر عطاکریں گے مگر آخرت میں ان کا اجر بہت زیادہ ہوگامگر شرط یہ ہے کہ وہ صبر کریں اور خدا ہی پربھروسہ کریں ‘‘(قرآ ن سورہ نحل آیت 42,41) 
خداکے راستے میں ہجرت  اللہ پر توکل کی آزمائش ہے۔ تمام انبیاء کو اس آزمائش سے گذاراگیا اور ان کے بعد ان کے پیروں کاروں کو بھی ۔ ہجرت مسلمانوں کے لئے ان کے تاریخی آغاز کے موقع پر ان کے صبر کا امتحان تھا۔ 


 اسلام کے وسیع دروازے

یہ ہجرت اس لئے بھی لازمی تھی کہ مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ایمان ان کی بنیاد ہے جو مقام، کلچر اور عادات واطوارکی تبدیلیوں کے جلو میں قائم ودائم رہتاہے۔مدینہ نے مسلمانوں کے لئے نئے سماجی روابط کی تاریخ رقم کی خصوصاً مسلم خواتین کے لئے جہاں وہ مکہ سے بدرجہا زیادہ بڑے رول میں نظر آنے لگیں ۔ یہاں کے بین القبائل رشتے بھی کافی پیچیدہ تھے اور یہاں یہودی اور نصرانی فرقوں کی بھی موجودگی معتدبہ تھی۔ یہ تمام اوامر مدینہ میں مکہ مکرمہ سے بالکل جداگانہ اپروچ کا تقاضہ کررہے تھے۔ یہاں سے مسلمانوں کے لئے ممکن تھاکہ وہ اسلامی تعلیمات اور مکہ کے کلچر کے درمیان فرق کرسکتے تھے ۔ اب ان کے لئے یہ ممکن تھاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے پابند رہتے ہوئے اپنے ان سابقہ عادات واطوارکا بغور اور ناقدانہ جائزہ لے سکتے تھے جو مکہ کے کلچر کاحصہ تھامگر اسلام کے جزو لاینفک نہیں تھے ۔ انھیں اب یہ موقع حاصل تھاکہ وہ اپنے ان عادات واطوار کی اصلاح کریں جو اسلامی ہونے کے بجائے انہیں مکہ کے ماحول کی بدولت ملے تھے۔ حضرت عمربن خطاب ؓ کو اس کا پہلا تجربہ اس وقت ہو اجب ان کی اہلیہ نے ان کو کسی معاملے میں کھراساجواب دیا اور اس پر انہوں نے شدید ردعمل کااظہارکیا۔ ان کی اہلیہ نے ایساکرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی کہ نئے ماحول کے تقاضوں کے طورپر ان کوخواتین کے اس روّیہ کو سہناہوگا جو مکّہ میں ممکن نہ تھا۔ مدینے میں ایسے تجربات سے یہ واضح ہونے لگاتھاکہ مومنین کی اس اوّلین جماعت کو نئے ماحول میں اپنے تمام سابقہ روایات ، عادات واطوار، طرزِرہائش پر سوالیہ نشان لگانے ہوں گے تاکہ اسلام اور عرب (بالخصوص مکّی) کلچر کے درمیان تمیز کی جاسکے اور نومسلموں اور ان کے کلچر کے تئیں رواداری کاماحول پیدا ہواور اسلام کے دروازے وسیع کرکے ہر کلمہ گو کو اپنی جانب راغب کرسکیں۔ 


ہجرت:مسلمانوں کی فراست کا امتحان

ہجرت اس اولین مؤمنوں کی جمعیت کی فراست کا بھی امتحان تھاتاکہ یہ واضح ہوکہ اسلامی اعتقادکے بنیادی نکات کیا ہیں اور ان کے ثقافتی مظاہر کون سے ہیں۔ اس پروسیس میں یہ مضمر تھاکہ نئے رواجوں اور نئی سوچ کو خو ش آمدید کہاجائے۔ اسلا م کے آفاقی نظریے نے اس ثقافتی تنوع کو اپنے اندر سمولیا جو مدینہ کے نئے ماحول نے آفرکیا۔ اس طرح یہ کلیہ تسلیم کرلیاگیاکہ وحدانیت کے آفاقی اصول کے تحت بھی مختلف کلچر پروان چڑھ سکتے ہیں۔ اسلام انسانوں کو یک رنگی تہذیب میں نہیں جکڑتا بلکہ ایمانی وحدت کے ساتھ لسانی ، علاقائی اور ماحولیاتی اثرات کو قبول کرتے ہوئے وضع وقطع ، خوردونوش ، رہائش وآسائش کے تنوع کے انجذاب کامتحمل ہے۔ 


ہجرت: غلامی کا خاتمہ کرتی ہے

  ہجرت نے مؤمنون کوآزادی کاسبق دیا ۔ مکہ کے ان مہاجروں نے یہ اعلان کیاکہ وہ اپنے نئے اعتقاد کو بندشوں اور تحدیدات کے ماحول سے آزاد کریں گے اور ستم رسیدگی انہیں قبول نہیں۔ وہ اپنی عبادات کو کھلے بندوں انجام دیں گے اور اپنے ایمان کاعلی الا اعلان اظہار کریں گے۔ حضوراکرم ؐ اور حضرت ابوبکر ؓ نے غلاموں(slaves) سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ وہ مدینہ ہجرت کرنے پر غلامی سے آزاد ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر تھاکہ اسلام ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈال رہاتھا جو ہرقسم کی غلامی سے آزادی کاضامن تھا۔اسلامی تعلیمات خود غلامی کا خاتمہ کرتی ہیں۔یہیں سے ایک روحانی مسلم امت کوبتادیاگیاکہ ایمان کے لیے آزادی اورـ"ـعدل و انصاف" کی ضرورت ہے اورآدمی کو اس کے لیے شخصی اور اجتماعی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔


ہجرت کی روح 

ہجرت قلب و ضمیر کو باطل خدائوں کی غلامی سے نکال لینے کانام ہے اورہرقسم کی برائیوں و گناہوں کو ترک کردینے سے عبارت ہے ۔وقت کے تمام طاغوت،قوت (Power) ،دولت ، نمود و نمائش وغیرہ سے منہ موڑلینے کا نام ہجرت ہے۔منکرات وفواحش اور جھوٹ سے اجتناب کا نام ہے۔اور ہرقسم کے شر اور ضلالت سے بھی دوری کے عزم کااظہارہے۔ہجرت اپنے آپ کو بندگی نفس سے آزاد کرنے کانام ہے۔ہجرت کے یہی روحانی تقاضے ہیں۔بعد کے زمانہ میں ایک صحابیؓ نے آپ ﷺسے پوچھا تھا کہ سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟آپ نے جواب دیا:’’ہجرۃ ما نہا ہ اللہ عنہ ‘‘ اللہ نے جن چیزوں(بدی،جھوٹ،گناہ وغیرہ)سے روکا ہے ان سے رک جانا ہی سب سے افضل ہجرت ہے۔اس روحانی ہجرت کو مومنوں کی زندگی میں کئی انداز سے دیکھا جاسکتاہے۔
ہجرت نے مومنوں کو ایک نیاروحانی مرتبہ عطاکیا جس سے انہیں اپنے اندرون میں جھانکنے اورقلبی ہجرت کا موقع ملا۔مکہ سے مدینہ کی ہجرت ایک جسمانی سفر تھی مگر ساتھ ہی وہ اپنے اندرون کی طرف ایک روحانی ہجرت بھی تھی،اپنے شہر اور اپنی زمین کو چھوڑکر انہوںنے عرفان ِذات اورمعرفتِ حق حاصل کی۔
تاریخ میں ہجرت ِمدینہ کو جوسنگ میل کامرتبہ حاصل ہے وہ دہرایا نہ جائے گا۔ مدینہ کے چندصحابہ کرام ؓ نے حضرت عائشہؓ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ دوبارہ ہجرت کے اس تجربہ کو دوہرانا چاہیں گے  ۔ حضرت عائشہ ؓنے پورے یقین کے ساتھ کہاکہ وہ اس روحانی لذت کو دوبارہ نہیں پاسکیںگے ۔
دراصل یہی وہ نکتہ تھاجس کی بناء پر حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیاکہ 622عیسوی کے اس واقعہ کو اسلامی تاریخ کے سب سے اہم سنگ میل کو ہجری کیلنڈر کی ابتداء کے لئے منتخب کیاجائے اور لو گ رہتی دنیا تک اس کو یادرکھیں۔ اب ہمارے لئے جو واحد امرقابل اعتنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کے جلو میں وقوع پذیر حالات پر نظر رکھتے ہوئے برائیوں اور بندشوں سے روحانی ہجرت کی راہیں دریافت کریں اور خدا کی طرف پلٹنے کی فکرکریں۔ 
ہجرت کے اس باب میں ہر آدمی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتاہے کہ وہ ابدی طورپر ایک روحانی سفر کاتجربہ ہے۔جو انسان کو عرفانِ ذات تک لاتاہے اوراسے نفس اوردنیا کے سراب سے آزاد کرتاہے۔اللہ تعالی کے لیے گھربارکو چھوڑنا اپنے آپ میں چند سوالوں کاجواب ہے جو گویا اللہ تعالی ہر بندہ سے پوچھتاہے کہ وہ کون ہے؟اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کی منزل کہاں ہے؟اس قسم کی ہجرت کا خطرہ مول لے کر اوراللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے وطن کو چھوڑکر گویا مسلمان مہاجراپنے عمل سے یہ جواب دیتاہے کہ اب وہ اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہ رہاہے اوراللہ کی غلامی کے سوِا ہرغلامی سے آزادہوگیاہے۔