Saturday, October 8, 2016

  ہجرتِ محمدی ؐ  : آزاد فضا ؤں میں سانس لینے کافیصلہ 

از:  سیدحامد محسن ، چیرمین سلام سنٹر ، بنگلور





اللہ تعالیٰ پر کلی اعتمادانبیا اکرام علیہ السلام کا خاصہ ہواہے۔ اسی اعتماد نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود کے بے ضر ر ہونے اور اس میں بے دھڑک کود پڑنے کا حوصلہ دیا۔ اسی اعتماد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرائیلیوں کے قافلے کے ساتھ بحر قلزم کو عبورکرنے پر آمادہ کیا۔ 
نبی آخرالزماںحضرت محمدؐ  کی ایمانی حرارت کی بنیادبھی یہی توکل علی اللہ تھا۔ جس کے سہارے حضور پرنور ؐ کی ایمانی حرارت نے وادیٔ ظلمات سے مدینہ کی جانب رخت سفر باندھنے کاعزم کیا۔ مکہ کی سرزمین دعوت الیٰ اللہ کے لئے بنجر ہوچکی تھی ۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کااِرادہ کرلیا۔ جب آپ کسی کام کاارادہ کرتے توقرآ نی ہدایت کے مطابق ان شاء اللہ کہتے اور پھر حالات کے تقاضے اور خدشات کوبالائے طاق رکھ کر اس عزم کوپوراکرنے میں لگ جاتے ۔ اللہ کی تائید پر غیرمتزلزل یقین آپؐ  کو مہمیز بخشتا اور آپ سعی مسلسل کے ساتھ اس عزم کو شرمندہ  ٔتعبیر کرتے۔ اوراس پورے پروسیس میں اللہ کے حضور میں انتہائی عجزوانکساری کے ساتھ دعا مانگتے رہتے۔ 


صبر ،ہمت، حکمت اور توکل علی اللہ

حضرت محمدؐ نے مدینہ ہجرت کے اِرادے کو عملی شکل دینے کے لئے دوبرس عرق ریزی کی ۔ منصوبہ بندی ایسی تھی کہ کسی مرحلے میں اتفاق کی گنجائش نہ رکھی جائے۔ پلاننگ ہر لحاظ سے مبسوط اور جامع ہو اور مخالفین کو کہیں سے ہوا نہ لگنے دی جائے۔ یہ ذہن نشین رہے کہ مکہ اور مدینے کے درمیان دوسومیل(340کلومیٹر)کافاصلہ تھا۔ راستہ پرخطر تھا۔ وادیوں کے نشیب وفراز ،کو ہستانی سلسلے اور ویران طوالتیں سبھی کچھ آزمائش اور امتحان کودعوت دے رہی تھیں۔ مگر توکل علی اللہ نے کبھی نبی ؐ کو ان فکری ، عقلی اور طبعی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے نہیں روکاجس کاتقاضہ انسانوں سے فطرت کرتی ہے لیکن ان تدابیر کی پشت پر ہر لمحہ اور ثانیہ یہ خیال محرک ہوتاکہ جو معرکہ انسانوں کے بس سے باہر ہو اس کے لئے خدائے ذوالجلال پر بھروسہ کیاجائے۔ دراصل اسلام کی یہی تعلیم ہے جو جبریت (Fatalism)کی نفی کرتی ہے۔ جس کے زیر اثرانسان تقدیر پر شاکرہوکر حالات سے مصالحت کرلینے میں آسودگی سمجھتاہے۔ اللہ کی تائید ونصرت اسی وقت آتی ہے جب انسان اپنی مقدرت بھر تمام تدابیر عملی طورپر استعمال کرچکاہوتاہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کہتی ہے۔ 
’’اللہ اس وقت تک لوگوں کے حالات تبدیل نہیں کرتاجب تک کہ انسان ان اوامرکو نہ تبدیل کرے جس کاو ہ متحمل ہے‘‘قرآن سورہ 13، آیت 11
ہجرت کے حالات اور واقعاتحضرت محمدؐ کے صبروہمت کے پیکر اور توکل علی اللہ ہونے کی گواہی دے رہے تھے اور یہ داستان بھی شہادت دے رہی ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر کس طرح اپنے محبوب بندوں کی جانوں کی مکڑی کے کمزور ترین تاروں سے حفاطت کرتاہے۔ خود حضور پرنورؐ کا کردار بتارہاہے کہ اللہ پراعتماد کے سہارے اس کاعزیز ترین نبی اس حال میں ہجرت کی تیارکرتاہے کہ وہ تمام قرضہ جات چکاڈالتاہے، کوئی تحفے قبول نہیں کرتا اور لوگوں کی امانتیں اپنی غیر حاضری میں ادا کرنے کاانتظام کرتاہے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ خود کو مکمل طورسے خدا کی تحویل میں دے ڈالتاہے اور کسی بندہ ٔ خدا کے احسان وسہارے کو قبول کرنے پر راضی نہیں ۔ 
ہجرت دراصل اسی اعتما دکانام ہے جو بندہ خدا کے تئیں اظہار کرتاہے۔وہ اپنی انا، اپنے مرتبے سبھی کچھ کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف خدا کے حضور خود کو جھکادیتاہے اور اعلان کرتاہے کہ کامیابی صرف خدا کی رحمت پر منحصر ہے۔ 


ایمان کی آزمائش

 ظلم اور جبر کی انتہا نے حضرت محمدؐ   کو اپنے پیروکاروں کے ہمراہ مکہ سے ہجرت پر مجبور کردیاتھا۔ حالات ناگفتہ بہ ہوتے جارہے تھے کئی مؤمنین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ دوسروں کو روزانہ زدوکوب کیاجاتا۔اب نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ قریش اور اس کے سرداروں نے نبی کریم ؐ کو ہلاک کردینے سے متعلق منصوبہ بنالیاتھا۔ لہذا ان ستم زدہ مسلمان مردوخواتین کے لئے ہجرت ایک ایسا مرحلہ تھا جو ان کی زندگیوں میں زبردست تبدیلی کانقیب تھا تاکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ کھلی فضا میں سانس لے سکیں اور اپنی عبادتوں اور مذہبی آزادیوں کااستعمال کرسکیں۔ قرآن میں فرمایاگیاتھاکہ ’’اللہ کی دنیا وسیع ہے ‘‘ انہوں نے محض اپنے ایمان واعتقاد کی خاطرہجرت کی۔اور اپنی مکی زندگی کے عادات واطوار کو تج دیا۔ قرآنی آیات میں ان مؤمنوں کی تعریف کی گئی اور ان کے حوصلے اور ایمان پر استقامت کو سراہاگیا جنہوں نے یہ دشوارمرحلے کو قبول کیااور خدائے واحد میں اپنے ایمان کو جتلایا ۔
’’وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی خاطر اپنے گھربار چھوڑے اور ظلم وستم سہے ، ان کو ہم دنیا میں بھی ایک اچھا گھر عطاکریں گے مگر آخرت میں ان کا اجر بہت زیادہ ہوگامگر شرط یہ ہے کہ وہ صبر کریں اور خدا ہی پربھروسہ کریں ‘‘(قرآ ن سورہ نحل آیت 42,41) 
خداکے راستے میں ہجرت  اللہ پر توکل کی آزمائش ہے۔ تمام انبیاء کو اس آزمائش سے گذاراگیا اور ان کے بعد ان کے پیروں کاروں کو بھی ۔ ہجرت مسلمانوں کے لئے ان کے تاریخی آغاز کے موقع پر ان کے صبر کا امتحان تھا۔ 


 اسلام کے وسیع دروازے

یہ ہجرت اس لئے بھی لازمی تھی کہ مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ایمان ان کی بنیاد ہے جو مقام، کلچر اور عادات واطوارکی تبدیلیوں کے جلو میں قائم ودائم رہتاہے۔مدینہ نے مسلمانوں کے لئے نئے سماجی روابط کی تاریخ رقم کی خصوصاً مسلم خواتین کے لئے جہاں وہ مکہ سے بدرجہا زیادہ بڑے رول میں نظر آنے لگیں ۔ یہاں کے بین القبائل رشتے بھی کافی پیچیدہ تھے اور یہاں یہودی اور نصرانی فرقوں کی بھی موجودگی معتدبہ تھی۔ یہ تمام اوامر مدینہ میں مکہ مکرمہ سے بالکل جداگانہ اپروچ کا تقاضہ کررہے تھے۔ یہاں سے مسلمانوں کے لئے ممکن تھاکہ وہ اسلامی تعلیمات اور مکہ کے کلچر کے درمیان فرق کرسکتے تھے ۔ اب ان کے لئے یہ ممکن تھاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے پابند رہتے ہوئے اپنے ان سابقہ عادات واطوارکا بغور اور ناقدانہ جائزہ لے سکتے تھے جو مکہ کے کلچر کاحصہ تھامگر اسلام کے جزو لاینفک نہیں تھے ۔ انھیں اب یہ موقع حاصل تھاکہ وہ اپنے ان عادات واطوار کی اصلاح کریں جو اسلامی ہونے کے بجائے انہیں مکہ کے ماحول کی بدولت ملے تھے۔ حضرت عمربن خطاب ؓ کو اس کا پہلا تجربہ اس وقت ہو اجب ان کی اہلیہ نے ان کو کسی معاملے میں کھراساجواب دیا اور اس پر انہوں نے شدید ردعمل کااظہارکیا۔ ان کی اہلیہ نے ایساکرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی کہ نئے ماحول کے تقاضوں کے طورپر ان کوخواتین کے اس روّیہ کو سہناہوگا جو مکّہ میں ممکن نہ تھا۔ مدینے میں ایسے تجربات سے یہ واضح ہونے لگاتھاکہ مومنین کی اس اوّلین جماعت کو نئے ماحول میں اپنے تمام سابقہ روایات ، عادات واطوار، طرزِرہائش پر سوالیہ نشان لگانے ہوں گے تاکہ اسلام اور عرب (بالخصوص مکّی) کلچر کے درمیان تمیز کی جاسکے اور نومسلموں اور ان کے کلچر کے تئیں رواداری کاماحول پیدا ہواور اسلام کے دروازے وسیع کرکے ہر کلمہ گو کو اپنی جانب راغب کرسکیں۔ 


ہجرت:مسلمانوں کی فراست کا امتحان

ہجرت اس اولین مؤمنوں کی جمعیت کی فراست کا بھی امتحان تھاتاکہ یہ واضح ہوکہ اسلامی اعتقادکے بنیادی نکات کیا ہیں اور ان کے ثقافتی مظاہر کون سے ہیں۔ اس پروسیس میں یہ مضمر تھاکہ نئے رواجوں اور نئی سوچ کو خو ش آمدید کہاجائے۔ اسلا م کے آفاقی نظریے نے اس ثقافتی تنوع کو اپنے اندر سمولیا جو مدینہ کے نئے ماحول نے آفرکیا۔ اس طرح یہ کلیہ تسلیم کرلیاگیاکہ وحدانیت کے آفاقی اصول کے تحت بھی مختلف کلچر پروان چڑھ سکتے ہیں۔ اسلام انسانوں کو یک رنگی تہذیب میں نہیں جکڑتا بلکہ ایمانی وحدت کے ساتھ لسانی ، علاقائی اور ماحولیاتی اثرات کو قبول کرتے ہوئے وضع وقطع ، خوردونوش ، رہائش وآسائش کے تنوع کے انجذاب کامتحمل ہے۔ 


ہجرت: غلامی کا خاتمہ کرتی ہے

  ہجرت نے مؤمنون کوآزادی کاسبق دیا ۔ مکہ کے ان مہاجروں نے یہ اعلان کیاکہ وہ اپنے نئے اعتقاد کو بندشوں اور تحدیدات کے ماحول سے آزاد کریں گے اور ستم رسیدگی انہیں قبول نہیں۔ وہ اپنی عبادات کو کھلے بندوں انجام دیں گے اور اپنے ایمان کاعلی الا اعلان اظہار کریں گے۔ حضوراکرم ؐ اور حضرت ابوبکر ؓ نے غلاموں(slaves) سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ وہ مدینہ ہجرت کرنے پر غلامی سے آزاد ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر تھاکہ اسلام ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈال رہاتھا جو ہرقسم کی غلامی سے آزادی کاضامن تھا۔اسلامی تعلیمات خود غلامی کا خاتمہ کرتی ہیں۔یہیں سے ایک روحانی مسلم امت کوبتادیاگیاکہ ایمان کے لیے آزادی اورـ"ـعدل و انصاف" کی ضرورت ہے اورآدمی کو اس کے لیے شخصی اور اجتماعی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔


ہجرت کی روح 

ہجرت قلب و ضمیر کو باطل خدائوں کی غلامی سے نکال لینے کانام ہے اورہرقسم کی برائیوں و گناہوں کو ترک کردینے سے عبارت ہے ۔وقت کے تمام طاغوت،قوت (Power) ،دولت ، نمود و نمائش وغیرہ سے منہ موڑلینے کا نام ہجرت ہے۔منکرات وفواحش اور جھوٹ سے اجتناب کا نام ہے۔اور ہرقسم کے شر اور ضلالت سے بھی دوری کے عزم کااظہارہے۔ہجرت اپنے آپ کو بندگی نفس سے آزاد کرنے کانام ہے۔ہجرت کے یہی روحانی تقاضے ہیں۔بعد کے زمانہ میں ایک صحابیؓ نے آپ ﷺسے پوچھا تھا کہ سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟آپ نے جواب دیا:’’ہجرۃ ما نہا ہ اللہ عنہ ‘‘ اللہ نے جن چیزوں(بدی،جھوٹ،گناہ وغیرہ)سے روکا ہے ان سے رک جانا ہی سب سے افضل ہجرت ہے۔اس روحانی ہجرت کو مومنوں کی زندگی میں کئی انداز سے دیکھا جاسکتاہے۔
ہجرت نے مومنوں کو ایک نیاروحانی مرتبہ عطاکیا جس سے انہیں اپنے اندرون میں جھانکنے اورقلبی ہجرت کا موقع ملا۔مکہ سے مدینہ کی ہجرت ایک جسمانی سفر تھی مگر ساتھ ہی وہ اپنے اندرون کی طرف ایک روحانی ہجرت بھی تھی،اپنے شہر اور اپنی زمین کو چھوڑکر انہوںنے عرفان ِذات اورمعرفتِ حق حاصل کی۔
تاریخ میں ہجرت ِمدینہ کو جوسنگ میل کامرتبہ حاصل ہے وہ دہرایا نہ جائے گا۔ مدینہ کے چندصحابہ کرام ؓ نے حضرت عائشہؓ سے خواہش ظاہر کی کہ وہ دوبارہ ہجرت کے اس تجربہ کو دوہرانا چاہیں گے  ۔ حضرت عائشہ ؓنے پورے یقین کے ساتھ کہاکہ وہ اس روحانی لذت کو دوبارہ نہیں پاسکیںگے ۔
دراصل یہی وہ نکتہ تھاجس کی بناء پر حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیاکہ 622عیسوی کے اس واقعہ کو اسلامی تاریخ کے سب سے اہم سنگ میل کو ہجری کیلنڈر کی ابتداء کے لئے منتخب کیاجائے اور لو گ رہتی دنیا تک اس کو یادرکھیں۔ اب ہمارے لئے جو واحد امرقابل اعتنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کے جلو میں وقوع پذیر حالات پر نظر رکھتے ہوئے برائیوں اور بندشوں سے روحانی ہجرت کی راہیں دریافت کریں اور خدا کی طرف پلٹنے کی فکرکریں۔ 
ہجرت کے اس باب میں ہر آدمی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتاہے کہ وہ ابدی طورپر ایک روحانی سفر کاتجربہ ہے۔جو انسان کو عرفانِ ذات تک لاتاہے اوراسے نفس اوردنیا کے سراب سے آزاد کرتاہے۔اللہ تعالی کے لیے گھربارکو چھوڑنا اپنے آپ میں چند سوالوں کاجواب ہے جو گویا اللہ تعالی ہر بندہ سے پوچھتاہے کہ وہ کون ہے؟اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس کی منزل کہاں ہے؟اس قسم کی ہجرت کا خطرہ مول لے کر اوراللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے وطن کو چھوڑکر گویا مسلمان مہاجراپنے عمل سے یہ جواب دیتاہے کہ اب وہ اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہ رہاہے اوراللہ کی غلامی کے سوِا ہرغلامی سے آزادہوگیاہے۔



Saturday, July 30, 2016

  مغربی جنگجویانہ ذہنیت کا جمہوری جھانسہ   
 : چلکاٹ رپورٹ
  دنیا کے دو طاقتور جمہوریتوں کی دہشت گردی کا پردہ فاش کرنے والی سنسنی خیز رپورٹ  

   ا ز:  -سید حامد محسن چیئرمین سلام سنٹر 

امریکہ اور برطانیہ کی جوڑی نے عراق کے خلاف 2003میں فوج کشی کی تھی اور چند دِنوں ہی میں عراق کی بعثی حکومت کاخاتمہ عمل میں آیا۔ عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کو اسی سال دسمبر میں گرفتار کرلیاگیااور مقدمہ چلا کر تین برس بعد سزائے موت دے دی گئی ۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکی اور برطانیہ انتظامیہ ، اس کی خفیہ ایجنسیوں اور مغربی میڈیا نے صدام حسین کی قیادت والی عراقی حکومت کو عام تباہی کے ہتھیار کی ذخیرہ اندوزی کے لئے محض دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے مطعون کیاتھااور مفتوحہ عراق میں ایسے کوئی ہتھیار نہیں پائے گئے۔ اس طرح اب یہ ثابت ہے کہ مغربی جمہوریتوں کی جانب سے کی گئی یہ جنگ محض ایک عرب اور مسلم ملک کی تباہی کی خاطرلڑی گئی۔ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے دئے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 13 لاکھ مسلما نوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں اور سارے خطے میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے۔ 


عراق اب شیعہ ۔ سنی خانہ جنگی کاشکارہے۔ اور امن کے امکانات کم ہیں۔ امریکی بمباری نے ملک کی ترقی کے ڈھانچے کو تقریباً مکمل طورپر تباہ کردیا اورنئے حکمرانوں سے تیل کی سستی قیمت پر فروخت سے متعلق معاہد ہ کر عراق کو ہونے والی اس تیل کی آمدنی کے عوض انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے بیشتر ٹھیکے امریکی اور برطانوی کمپنیوں کے سپرد کردئے۔ 
 چِلکاٹ کمیٹی کی تشکیل 
عراق کی جنگ کے سلسلے میں برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن براؤن (Gordon Brown)نے 2009میں ڈپلومیٹ سرجان چِلکاٹ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ وہ ان واقعات کی تحقیق کرے جس کے تحت برطانیہ کوا س جنگ میںملوث ہوناپڑا اور اس خطے کو اس قدر بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کمیٹی کو اپنی رپورٹ ایک برس میں مکمل کرنی تھی مگر اس نے سات برس میں اس کام کو مکمل کیا ۔ اب یہ رپورٹ جو26لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے7جولائی 2016کو منظرعام پر آچکی ہے۔ 
چلکاٹ کمیٹی نے ان سات برسوں میں 13 ملین ڈالر اس رپورٹ پر خرچ کئے یہ جاننے کے لئے کہ کس طرح سے برطانیہ اورامریکہ نے عراق کے 13لاکھ  مسلمانوں کو بموں سے تیغ کیا۔ 
اس رپورٹ نے گرچہ ٹونی بلیئرکو ’جھوٹا‘نہیں قراردیاہے مگر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹونی بلیئر نے غیر ضروری عجلت سے کام کیا اور پرامن ذرائع کو استعمال کئے بغیر برطانیہ کو جنگ میں جھونک ڈالا۔ 
عراق پر فوج کشی کی پالیسی کی بنیاد پُر نقص انٹلی جنس رپورٹوں پر رکھی گئی جبکہ اس کو چیلنج کیاجاناچاہیے تھا اور حق کی کسوٹی پر پرکھا جاناچاہیے تھا۔  جن بنیادوں پر فوج کشی کاکیس تیا رکیاگیاتھا وہ قانونی وجوہات کو تشفی بخش انداز سے پور انہیں کرتی تھیں۔ 
عمومی طورپر چلکاٹ رپورٹ نے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں برطانوی میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈہ کے جائزے اور تنقید سے احتراز کیاہے ۔ حالانکہ ایک سروے کے مطابق میڈیا کے سامعین، ناظرین وقارئین کو مغالطہ آمیز، پرفریب اور من گھڑت اطلاعات بہم پہنچائی گئیں۔ جس سے یہ مقصودتھاکہ برطانوی عوام جنگ کی حمایت کریں۔ 
جمہوریت کا قائد یا آمریت کا مردآہن
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر حامد دباش چلکاٹ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  ’ ’مسٹرٹونی بلئیر کو کس نے تین بار برطانیہ کاوزیر اعظم منتخب کیا۔ وہ پورے دس برس تک برطانیہ کی وزارت عظمی پر متمکن رہے۔ کیا ان کو عراقیوں نے ووٹ دیے یا پھر وہ کسی عرب یا مسلم ملک میں وزیراعظم کے لئے چنے گئے۔  1997، 2001اور 2005کے انتخابات جیت کر ٹونی بلیئر برطانیہ میں لیبر پارٹی کے طویل ترین مدت تک وزیراعظم رہنے والے رہنماتھے۔ کیاان کی ان انتخابی فتوحات میں کسی پر ہوش عراقی مرد یا خاتون کے ووٹ بھی شامل تھے جس نے یہ سمجھ کر ووٹ دئے ہوںکہ یہ مغرب کی آزادخیال جمہوریت کا مثالی نمونہ ہے۔ اور’ ’  دنیا کی مجالس مقننہ کی ماں‘‘(Mother of Parliaments) کہلاتی ہے۔ ‘‘
اب یہ امر غورطلب ہے کہ جب برطانیہ کاجمہوری طورپرمنتخب رہنما عوام کودھوکا دیتا ہے ، جھوٹے شواہد اکٹھا کرکے ساری دنیا میں دہشت گردی کا نقارہ بجاتاپھرتاہے ، جھوٹ اور فریب کاسمندر بہاتاہے تو آیا یہ کسی لبرل جمہوریت کاقائد ہے یا تیسری دنیا کی کسی آمریت کامردآہن ہے۔ 
ایک اورسوال ، ان کادعویٰ ہے کہ مغربی جمہوریتوں میں آزاد پریس ریاستوں کے مضبوط ستون ہے۔ ہم فرض کئے لیتے ہیں کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس آزاد پریس نے جنگ کی تیاریوں کے درمیان اس جنگ کے جواز کے سلسلے میں کیااپنا فرض ایمانداری سے نبھایا۔ اس نے عراق کی جنگ پر برطانیہ کے موقف کی تائید کیوں کی ؟
’’اگر دنیا میں کسی دہشت کے واقعہ کے لئے مسلمانوں کوموردِ الزام ٹہرایا جاتاہے (حالانکہ اس مسلمان کوکسی نے نہ ووٹ دئے نہ انہیں منتخب کیا( تو ٹونی بلئیر اور اس کے ساجھی جارج بش کو کیوں نہ خطاوار ٹہرایاجائے‘‘
کیا اس فری پریس نے اپنی کسی تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعہ امریکہ اوربرطانیہ کے مجرمانہ عزائم کاانکشاف کیا اور یہ بتایاکہ یہ جنگ کتنی بے سود اور نقصان دہ تھی ۔ ان دونوں ممالک نے جرائم کی پردہ کشائی کرنے کے بجائے کس طرح اس سرکاری پروپگنڈہ کے آلۂ کار بن گئے جس کے بعد عوام کے پاس حقیقت جاننے کا اور کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ 
جمہوری طورپر منتخب جنگی مجرم
اب جب کہ عراق پر امریکی اور برطانوی فوج کشی کی تحقیق پر مقررکردہ چلکاٹ کمیشن کی رپورٹ جارج بش اور ٹونی بلئیر کے جرائم کو طشت ازبام کرچکی ہے ، ہمیں تیقن کے ساتھ معلوم ہے کہ ٹونی بلئیر جنگی مجرم ہے۔ ایک مغربی جمہوری ملک کاوزیر اعظم ہوتے ہوئے یہ شخص دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل اور تباہی وغارت گری کامجرم ہے۔ اس کے جرائم اور اس کے ہاتھوں ہلاک شدگان کی تعداد گوریلا لڑاکوں اور زیر زمین دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔ 
ٹونی بلیئر اور اس کا رنگ ماسٹر جارج بش، اس کاوزیردفاع ڈونالڈ رمسفیلڈ اور نائب صدر ڈک چینی تمام جنگی مجرم قرار دئے جانے چاہیے۔ جن پر جنگی جرائم کے لئے مقدمہ چلایاجانا چاہیے اور ان الزامات میں انسانیت کے خلاف جرائم کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ 
چلکاٹ رپورٹ میں وہ ساری تفصیل درج ہے جس کے تحت امریکہ ۔ برطانیہ کی جوڑی نے عراق جیسی خودمختار ریاست پر فوج کشی کامنصوبہ بنایا۔ اس مقصد کی خاطریہ فریب اور جھوٹ اور بہتان طرازی کی مہم چلائی۔ اپنے مکارانہ پروپگنڈے سے مکرکا جال بنا اور دنیا کے عوام کو ذہنی طورپر تیا رکیااور اس ریاست کے حصے بخرے کر مایوس عوام کودہشت گردی اور زیرزمین مزاحمت پر ابھارا ۔نتیجتاً القاعدہ ا ورداعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں۔ مختصراًاتنا کہاجاسکتاہے کہ’’ مغربی لبرل جمہوریتیں‘‘ جو اپنی پیٹھ ٹھونکتے نہیں تھکتیں ،سا ری دنیا اور انسانیت کے لئے وہ خود ایک خطرناک ترین خطرہ ہیں۔ ان کا پہلا ہدف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں جن کوداعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کے لئے خاطی اور قصوروار ٹہرایا جارہاہے۔ اور الزام دھرنے والے خودہی دین اسلام سے خوفزدگی کی نفسیات کو فروغ دینے والے متعصب مغربی قائدین ہیں جن کی ذہنیت کے لئے آئینے دار بل ماہر اور اینڈرس بریوک جیسے افراد ہیں۔ 
کیاکسی مسلمان نے داعش یاالقاعدہ کوووٹ دیاہے؟ یہ سوال اہم ہے کیونکہ یہ دہشت گرد قوتیں جمہوری طورپرمنتخب نہیں ہیں۔ 
اگردین اسلام کوالقاعدہ اور داعش کے جرائم کی خاطر قصوروار قراردیاجارہا ہے تو ساری مغربی جمہوری ریاستوں کوکیوں نہ انسانیت کے قتل عام کے لئے قاتل ٹہرایا جائے۔ جس کی عوام نے اپنی رائے دہی سے بش اور بلئیر کو منتخب کیا ہے او ران کو عراق اور افغانستان پر فوج کشی کی اجازت دی ہے
فی الحال امریکہ صدارتی انتخابات کے پروسیس سے گزررہاہے ۔ اور لوگوں کو یاتو ہلیری کلنٹن یا ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سفید فام نسل پرست اور غیر ملکیوں سے خوف زدہ کرنے والے متعصب ذہن امیدواروں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔ ان دونوں امیدوار میں سے چاہے کوئی منتخب ہو ، دنیا کواور خصوصاً مسلم دنیا کو خطرات کاسامنا ہے۔ اس بات کافیصلہ کہ کون منتخب ہوگا صرف امریکی عوام کو کرنا ہے۔ اس میںفلسطینی بیواؤں کا، عراقی ماؤں کااور افغانی بچوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ وہ اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ اس پروسیس میں بولیں گے بھی نہیں ۔ 
کیا یہ جمہوریت ساری دنیا کے لئے مثالی ہوسکتی ہے ؟اسرائیل میں ساری دنیا سے پہنچنے والے یہودی تارکین وطن بھی فلسطینیوں کی کمر توڑ کر ہی ان کی بستیوں کو برباد کرکے ان کو پناہ گزیں بناکر ہی اسرائیلی ریاست کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ اور اس مہم جو ریاست کو دنیا ،’’جمہوری اسرائیلی ریاست‘‘کہتی ہے۔ بلکہ اس پرمستزاد یہ کہ اسرائیل کومشرق وسطیٰ کی واحدجمہوری ریاست کے ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ کیا یہ نسل پرست اور متعصب ریاست دیگردنیا کے لئے مثال ہوسکتی ہے۔ 
اب جو نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لبرل جمہوری ریاستیں سوائے اس تخیلاتی جغرافیائی خطے جس کو ’’مغرب ‘‘ کہاجاتاہے کہ علاوہ کہیں اپناوجود نہیں رکھتیں ۔ بقیہ دنیا میں محض آمریتیں ہیں۔ منشیات پر مبنی اقتصادیات پر چلنے والی ریاستیں ہیں۔ فوجی ریاستیں ہیں ، تاحیات صدور وقائدین والی ریاستیں ہیں ۔ آسمانی مندوب کی حیثیت رکھنے والے قائدین ہیں اور خدائی نمائندوں کامرتبہ رکھنے والے حکمران ہیں۔ 


hamidforall@gmail.com