Saturday, July 30, 2016

  مغربی جنگجویانہ ذہنیت کا جمہوری جھانسہ   
 : چلکاٹ رپورٹ
  دنیا کے دو طاقتور جمہوریتوں کی دہشت گردی کا پردہ فاش کرنے والی سنسنی خیز رپورٹ  

   ا ز:  -سید حامد محسن چیئرمین سلام سنٹر 

امریکہ اور برطانیہ کی جوڑی نے عراق کے خلاف 2003میں فوج کشی کی تھی اور چند دِنوں ہی میں عراق کی بعثی حکومت کاخاتمہ عمل میں آیا۔ عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کو اسی سال دسمبر میں گرفتار کرلیاگیااور مقدمہ چلا کر تین برس بعد سزائے موت دے دی گئی ۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکی اور برطانیہ انتظامیہ ، اس کی خفیہ ایجنسیوں اور مغربی میڈیا نے صدام حسین کی قیادت والی عراقی حکومت کو عام تباہی کے ہتھیار کی ذخیرہ اندوزی کے لئے محض دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے مطعون کیاتھااور مفتوحہ عراق میں ایسے کوئی ہتھیار نہیں پائے گئے۔ اس طرح اب یہ ثابت ہے کہ مغربی جمہوریتوں کی جانب سے کی گئی یہ جنگ محض ایک عرب اور مسلم ملک کی تباہی کی خاطرلڑی گئی۔ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے دئے گئے اعدادوشمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 13 لاکھ مسلما نوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں اور سارے خطے میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے۔ 


عراق اب شیعہ ۔ سنی خانہ جنگی کاشکارہے۔ اور امن کے امکانات کم ہیں۔ امریکی بمباری نے ملک کی ترقی کے ڈھانچے کو تقریباً مکمل طورپر تباہ کردیا اورنئے حکمرانوں سے تیل کی سستی قیمت پر فروخت سے متعلق معاہد ہ کر عراق کو ہونے والی اس تیل کی آمدنی کے عوض انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے بیشتر ٹھیکے امریکی اور برطانوی کمپنیوں کے سپرد کردئے۔ 
 چِلکاٹ کمیٹی کی تشکیل 
عراق کی جنگ کے سلسلے میں برطانیہ کے وزیر اعظم گورڈن براؤن (Gordon Brown)نے 2009میں ڈپلومیٹ سرجان چِلکاٹ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی تاکہ وہ ان واقعات کی تحقیق کرے جس کے تحت برطانیہ کوا س جنگ میںملوث ہوناپڑا اور اس خطے کو اس قدر بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کمیٹی کو اپنی رپورٹ ایک برس میں مکمل کرنی تھی مگر اس نے سات برس میں اس کام کو مکمل کیا ۔ اب یہ رپورٹ جو26لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے7جولائی 2016کو منظرعام پر آچکی ہے۔ 
چلکاٹ کمیٹی نے ان سات برسوں میں 13 ملین ڈالر اس رپورٹ پر خرچ کئے یہ جاننے کے لئے کہ کس طرح سے برطانیہ اورامریکہ نے عراق کے 13لاکھ  مسلمانوں کو بموں سے تیغ کیا۔ 
اس رپورٹ نے گرچہ ٹونی بلیئرکو ’جھوٹا‘نہیں قراردیاہے مگر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹونی بلیئر نے غیر ضروری عجلت سے کام کیا اور پرامن ذرائع کو استعمال کئے بغیر برطانیہ کو جنگ میں جھونک ڈالا۔ 
عراق پر فوج کشی کی پالیسی کی بنیاد پُر نقص انٹلی جنس رپورٹوں پر رکھی گئی جبکہ اس کو چیلنج کیاجاناچاہیے تھا اور حق کی کسوٹی پر پرکھا جاناچاہیے تھا۔  جن بنیادوں پر فوج کشی کاکیس تیا رکیاگیاتھا وہ قانونی وجوہات کو تشفی بخش انداز سے پور انہیں کرتی تھیں۔ 
عمومی طورپر چلکاٹ رپورٹ نے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں برطانوی میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈہ کے جائزے اور تنقید سے احتراز کیاہے ۔ حالانکہ ایک سروے کے مطابق میڈیا کے سامعین، ناظرین وقارئین کو مغالطہ آمیز، پرفریب اور من گھڑت اطلاعات بہم پہنچائی گئیں۔ جس سے یہ مقصودتھاکہ برطانوی عوام جنگ کی حمایت کریں۔ 
جمہوریت کا قائد یا آمریت کا مردآہن
کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر حامد دباش چلکاٹ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  ’ ’مسٹرٹونی بلئیر کو کس نے تین بار برطانیہ کاوزیر اعظم منتخب کیا۔ وہ پورے دس برس تک برطانیہ کی وزارت عظمی پر متمکن رہے۔ کیا ان کو عراقیوں نے ووٹ دیے یا پھر وہ کسی عرب یا مسلم ملک میں وزیراعظم کے لئے چنے گئے۔  1997، 2001اور 2005کے انتخابات جیت کر ٹونی بلیئر برطانیہ میں لیبر پارٹی کے طویل ترین مدت تک وزیراعظم رہنے والے رہنماتھے۔ کیاان کی ان انتخابی فتوحات میں کسی پر ہوش عراقی مرد یا خاتون کے ووٹ بھی شامل تھے جس نے یہ سمجھ کر ووٹ دئے ہوںکہ یہ مغرب کی آزادخیال جمہوریت کا مثالی نمونہ ہے۔ اور’ ’  دنیا کی مجالس مقننہ کی ماں‘‘(Mother of Parliaments) کہلاتی ہے۔ ‘‘
اب یہ امر غورطلب ہے کہ جب برطانیہ کاجمہوری طورپرمنتخب رہنما عوام کودھوکا دیتا ہے ، جھوٹے شواہد اکٹھا کرکے ساری دنیا میں دہشت گردی کا نقارہ بجاتاپھرتاہے ، جھوٹ اور فریب کاسمندر بہاتاہے تو آیا یہ کسی لبرل جمہوریت کاقائد ہے یا تیسری دنیا کی کسی آمریت کامردآہن ہے۔ 
ایک اورسوال ، ان کادعویٰ ہے کہ مغربی جمہوریتوں میں آزاد پریس ریاستوں کے مضبوط ستون ہے۔ ہم فرض کئے لیتے ہیں کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس آزاد پریس نے جنگ کی تیاریوں کے درمیان اس جنگ کے جواز کے سلسلے میں کیااپنا فرض ایمانداری سے نبھایا۔ اس نے عراق کی جنگ پر برطانیہ کے موقف کی تائید کیوں کی ؟
’’اگر دنیا میں کسی دہشت کے واقعہ کے لئے مسلمانوں کوموردِ الزام ٹہرایا جاتاہے (حالانکہ اس مسلمان کوکسی نے نہ ووٹ دئے نہ انہیں منتخب کیا( تو ٹونی بلئیر اور اس کے ساجھی جارج بش کو کیوں نہ خطاوار ٹہرایاجائے‘‘
کیا اس فری پریس نے اپنی کسی تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعہ امریکہ اوربرطانیہ کے مجرمانہ عزائم کاانکشاف کیا اور یہ بتایاکہ یہ جنگ کتنی بے سود اور نقصان دہ تھی ۔ ان دونوں ممالک نے جرائم کی پردہ کشائی کرنے کے بجائے کس طرح اس سرکاری پروپگنڈہ کے آلۂ کار بن گئے جس کے بعد عوام کے پاس حقیقت جاننے کا اور کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ 
جمہوری طورپر منتخب جنگی مجرم
اب جب کہ عراق پر امریکی اور برطانوی فوج کشی کی تحقیق پر مقررکردہ چلکاٹ کمیشن کی رپورٹ جارج بش اور ٹونی بلئیر کے جرائم کو طشت ازبام کرچکی ہے ، ہمیں تیقن کے ساتھ معلوم ہے کہ ٹونی بلئیر جنگی مجرم ہے۔ ایک مغربی جمہوری ملک کاوزیر اعظم ہوتے ہوئے یہ شخص دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل اور تباہی وغارت گری کامجرم ہے۔ اس کے جرائم اور اس کے ہاتھوں ہلاک شدگان کی تعداد گوریلا لڑاکوں اور زیر زمین دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔ 
ٹونی بلیئر اور اس کا رنگ ماسٹر جارج بش، اس کاوزیردفاع ڈونالڈ رمسفیلڈ اور نائب صدر ڈک چینی تمام جنگی مجرم قرار دئے جانے چاہیے۔ جن پر جنگی جرائم کے لئے مقدمہ چلایاجانا چاہیے اور ان الزامات میں انسانیت کے خلاف جرائم کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ 
چلکاٹ رپورٹ میں وہ ساری تفصیل درج ہے جس کے تحت امریکہ ۔ برطانیہ کی جوڑی نے عراق جیسی خودمختار ریاست پر فوج کشی کامنصوبہ بنایا۔ اس مقصد کی خاطریہ فریب اور جھوٹ اور بہتان طرازی کی مہم چلائی۔ اپنے مکارانہ پروپگنڈے سے مکرکا جال بنا اور دنیا کے عوام کو ذہنی طورپر تیا رکیااور اس ریاست کے حصے بخرے کر مایوس عوام کودہشت گردی اور زیرزمین مزاحمت پر ابھارا ۔نتیجتاً القاعدہ ا ورداعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں۔ مختصراًاتنا کہاجاسکتاہے کہ’’ مغربی لبرل جمہوریتیں‘‘ جو اپنی پیٹھ ٹھونکتے نہیں تھکتیں ،سا ری دنیا اور انسانیت کے لئے وہ خود ایک خطرناک ترین خطرہ ہیں۔ ان کا پہلا ہدف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں جن کوداعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کے لئے خاطی اور قصوروار ٹہرایا جارہاہے۔ اور الزام دھرنے والے خودہی دین اسلام سے خوفزدگی کی نفسیات کو فروغ دینے والے متعصب مغربی قائدین ہیں جن کی ذہنیت کے لئے آئینے دار بل ماہر اور اینڈرس بریوک جیسے افراد ہیں۔ 
کیاکسی مسلمان نے داعش یاالقاعدہ کوووٹ دیاہے؟ یہ سوال اہم ہے کیونکہ یہ دہشت گرد قوتیں جمہوری طورپرمنتخب نہیں ہیں۔ 
اگردین اسلام کوالقاعدہ اور داعش کے جرائم کی خاطر قصوروار قراردیاجارہا ہے تو ساری مغربی جمہوری ریاستوں کوکیوں نہ انسانیت کے قتل عام کے لئے قاتل ٹہرایا جائے۔ جس کی عوام نے اپنی رائے دہی سے بش اور بلئیر کو منتخب کیا ہے او ران کو عراق اور افغانستان پر فوج کشی کی اجازت دی ہے
فی الحال امریکہ صدارتی انتخابات کے پروسیس سے گزررہاہے ۔ اور لوگوں کو یاتو ہلیری کلنٹن یا ڈونالڈ ٹرمپ جیسے سفید فام نسل پرست اور غیر ملکیوں سے خوف زدہ کرنے والے متعصب ذہن امیدواروں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔ ان دونوں امیدوار میں سے چاہے کوئی منتخب ہو ، دنیا کواور خصوصاً مسلم دنیا کو خطرات کاسامنا ہے۔ اس بات کافیصلہ کہ کون منتخب ہوگا صرف امریکی عوام کو کرنا ہے۔ اس میںفلسطینی بیواؤں کا، عراقی ماؤں کااور افغانی بچوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ وہ اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ وہ اس پروسیس میں بولیں گے بھی نہیں ۔ 
کیا یہ جمہوریت ساری دنیا کے لئے مثالی ہوسکتی ہے ؟اسرائیل میں ساری دنیا سے پہنچنے والے یہودی تارکین وطن بھی فلسطینیوں کی کمر توڑ کر ہی ان کی بستیوں کو برباد کرکے ان کو پناہ گزیں بناکر ہی اسرائیلی ریاست کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ اور اس مہم جو ریاست کو دنیا ،’’جمہوری اسرائیلی ریاست‘‘کہتی ہے۔ بلکہ اس پرمستزاد یہ کہ اسرائیل کومشرق وسطیٰ کی واحدجمہوری ریاست کے ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ کیا یہ نسل پرست اور متعصب ریاست دیگردنیا کے لئے مثال ہوسکتی ہے۔ 
اب جو نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لبرل جمہوری ریاستیں سوائے اس تخیلاتی جغرافیائی خطے جس کو ’’مغرب ‘‘ کہاجاتاہے کہ علاوہ کہیں اپناوجود نہیں رکھتیں ۔ بقیہ دنیا میں محض آمریتیں ہیں۔ منشیات پر مبنی اقتصادیات پر چلنے والی ریاستیں ہیں۔ فوجی ریاستیں ہیں ، تاحیات صدور وقائدین والی ریاستیں ہیں ۔ آسمانی مندوب کی حیثیت رکھنے والے قائدین ہیں اور خدائی نمائندوں کامرتبہ رکھنے والے حکمران ہیں۔ 


hamidforall@gmail.com



No comments:

Post a Comment